وزیراعظم نریندرمودی 2024میں ہونے والے عام انتخابات اور اس سے پہلے 4ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے خوفزدہ ہوکر ہندوستانی تحقیقاتی ایجنسیوں کا سہارالیناشروع کردیاہے۔کانگریس کے بڑے سے بڑے لیڈروں کی چھان بین کے بعد مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس،بہارکی آرجے ڈی ،جے ڈی یو اوردہلی کی عام آدمی پارٹی کے سینئرلیڈروں کے گھروں چھاپے مارکرتمام سیاسی پارٹیوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش یا سازش جاری ہے۔لیکن مودی حکومت کو یہ سمجھناچاہئے کہ آج کے سوشیل میڈیاکے زمانے میں کچھ بھی چھپاکرنہیں رکھ سکتے۔ووٹروں نے اب جان لیاہے کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال اب اپنی روٹی سینکنے کیلئے کیاجاتاہے،اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔اس بات سے ہرکوئی واقف ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی 2014 سے ہی کانگریس مکت بھارتکا نعرہ لگاتے رہے ہیں۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ خود ان کے مٹنے کا وقت آگیا ہے۔ یعنی اب ان کے اقتدار کے پائے بظاہر ہلنے لگے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات سے اس کا آغاز ہو گیا ہے۔عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا ایم پی سنجے سنگھ عدالت میں پیشی سے قبل کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی 2024 کا الیکشن ہار رہے ہیں، اسی لیے وہ ایسا کر رہے ہیں۔ اس تاریخ کو بھی یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے دنوں کرناٹک اسمبلی کے انتخابات میں اس کی شکست بظاہر آئندہ ہونے والی شکست کی بنیاد بننے جا رہی ہے۔ حالانکہ وہاں جیت حاصل کرنے کے لیے اس نے کیا کیا نہیں کیا تھا۔ حجاب مخالف مہم، مسجدوں سے لاڈ اسپیکر اتارنے کی کارروئی، حلال گوشت کے خلاف مہم اور ایسے ہی دیگر اقدامات کی بنیاد پر اس نے جو مذہبی منافرت کا ماحول بنایا تھا وہ اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو بی جے پی کے پکے حمایتی بھی کہنے لگے ہیں کہ ہم توبی جے پی سپورٹر ہیں لیکن اب اس حکومت کو جانا چاہیے۔مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں نومبر دسمبر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ لیکن ان تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے۔ چھتیس گڑھ میں تو وہ بہت کمزور ہے اور ابھی سے وہاں اس کی شکست کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھی اس کے قدموں کے نیچے سے قالین سرک رہی ہے جس کے نتیجے میں ماما یعنی شیو راج سنگھ چوہان کے اقتدار کے پائے لڑکھڑانے لگے ہیں۔ ان کو سنبھالا دینے کے لیے بی جے پی اعلی قیادت نے مرکزی وزرا، ممبران پارلیمنٹ اور مرکزی رہنماں کو مدھیہ پردیش میں اتار دیا ہے۔ پارٹی کے اس قدم کی مخالفت ریاستی لیڈران تو کر ہی رہے ہیں خود وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جن کے نام امیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔اس حوالے سے سینئر لیڈر کیلاش وجے ورگیی کا ردعمل خاصا دلچسپ ہے۔ جب ان کا نام امیدواروں کی فہرست میں آیا تو انھوں نے اس پر بڑی حیرانی کا اظہار کیا۔ ان کو ایسا لگا کہ جیسے پارٹی نے ان کی توہین کر دی ہے۔ انھوں نے اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے ایسا فیصلہ کیوں کیا۔ اب وہ اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ انھوں نے یہ کہہ کر اپنی بھڑاس نکالی کہ میں ایک بہت ہی سینئر لیڈر ہوں، کیا اب میں لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر ووٹ کی بھیک مانگوں گا۔ ان کے بقول انھیں الیکشن لڑنے میں ایک فیصد بھی دلچسپی نہیں ہے۔کانگریس نے جس طرح کرناٹک میں بومئی حکومت میں چالیس فیصد کمیشن کا ایشو اٹھایا تھا اسی طرح اس نے مدھیہ پردیش میں بھی کمیشن کا ایشو اٹھایا ہے اور اس کی یہ بات عوام کو خوب پسند آرہی ہے۔ اس وقت بہت سے نیوز چینلوں کے نمائندے مذکورہ ریاستوں اور خاص طور پر مدھیہ پردیش میں عوام کی رائے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں اور عوام کی اکثریت بی جے پی حکومت کے خلاف اپنی رائے دے رہی ہے۔ریاستی مسائل کے علاوہ وہ مسائل بھی ان ریاستوں میں بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں جن سے پورا ملک جوجھ رہا ہے۔ یعنی مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل۔ خواتین کے تحفظ کے مسائل۔ کسانوں کی فصلوں کے دام نہ ملنے کے مسائل۔ ہیٹ اسپیچ کے مسائل۔ اور بھی دیگر بہت سے مسائل ہیں جن سے جنتا پریشان ہے۔ لہذا بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کے خلاف عوامی ناراضگی میں مزید ایشو شامل ہو کر اسے اور سنگین بنا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے جو مقامی رہنما ہیں اور جن کو امید تھی کہ انھیں پارٹی ٹکٹ دے گی وہ دہلی سے لیڈروں کو لانے سے ناراض ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محنت ہم کریں اور ایم ایل اے دوسرے بنیں۔ ادھر مادھو را سندھیا کے حامیوں اور مخالفوں میں الگ ٹھنی ہوئی ہے۔ سندھیا حامی بہت سے لیڈر کانگریس میں واپس آگئے ہیں۔ ان کے حامیوں کو ٹکٹ دینے سے ان کے مخالفوں میں غصہ ہے۔تقریبا یہی صورت حال راجستھان میں بھی ہے۔ سابق وزیر اعلی وسندھرا راجے سندھیا پارٹی سے ناراض ہیں۔ پارٹی نے جس طرح ان کو الگ تھلگ کیا ہے اس سے ان کے حامیوں کی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ کانگریس حکومت کی اچھی کارکردگی نے بھی بی جے پی کے لیے مشکلیں پیدا کر دی ہیں۔ وہ گہلوت حکومت کے خلاف ایشوز تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ اس میں ناکام ہے۔ تلنگانہ میں بھی بی جے پی کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ وہاں اصل مقابلہ کانگریس اور بی آر ایس میں ہے۔دراصل اس وقت کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے ملک میں جس قسم کی سیاست شروع کی ہے اس نے بی جے پی کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کی بھارت جوڑو یاترا نے ملک میں ایک صاف ستھری اور عوامی مسائل کو اٹھانے والی جس سیاست کا آغاز کیا ہے اسے لوگوں کی حمایت مل رہی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں ملکی سیاست جس طرح زوال کے گڈھے میں گری ہے اس سے عوام ناراض ہیں۔ راہل گاندھی نے سیاست کو منافرت کے جذبات سے پاک کرنے اور عوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی جو مہم شروع کی ہے اس نے رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ اس نے ملکی سیاست میں ایک نئی شروعات کی ہے۔ بی جے پی اس سے گھبرا گئی ہے۔ بہرحال اس وقت بی جے پی کی حالت خراب ہے۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں ان میں اس کی شکست صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سلسلہ 2024 تک جاری رہے۔ اس بات کی قوی امید ہے۔
محمدعبید اللہ شریف
مدیرِ اعلیٰ
روزنامہ پاسبان